آمدورفت

محفوظات

Budaya

Wisata

Linear

Budaya

Daya

Kuliner

Liner

تبصرے

kota

Free hosting
    • Latest Stories

      What is new?

    • Comments

      What They says?

    ,



    حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جہاں بہت سارے کمالات وامتیازات وصفات سے مالا مال فرمایا تھا، ان میں سے ایک بڑی صفت”خُلق عظیم“ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکے اخلاق کی تعریف بھی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    وَاِنَکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ( سورة القلم:۴) ترجمہ:”اور بے شک آپ اخلاق (حسنہ) کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں۔“

    جو شخص بھی آپ ﷺ کے قریب ہوا ،وہ آپ کے اخلاق کو دیکھ کر مفتوح ہوکر رہ گیا۔

    خلق کے لغوی معنی ہیں :عادت اور خصلت۔ اور حسن خلق سے مراد خوش اخلاقی، مروت، اچھا برتاؤ، اچھا رویہ اور اچھے اخلاق ہیں۔ اخلاق کی دو قسمیں ہیں۔

    ۱:-عام اخلاق ۲:-اعلیٰ اخلاق۔

    اخلاق کی معمولی قسم یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق جوابی اخلاق ہو کہ جو مجھ سے جیساکرے گا، میں اس کے ساتھ ویسا کروں گا۔ یہ اس کا اصول ہو، جو شخص اس سے کٹے وہ بھی اس سے کٹ جائے، جو شخص اس پر ظلم کرے وہ بھی اس پر ظلم کرنے لگے، جو شخص اس کے ساتھ برائی کرے وہ بھی اس کے لئے برا بن جائے، یہ عام اخلاق ہے۔

    اس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویے کی پرواہ کئے بغیر اپنا رویہ متعین کرے۔ اس کا اخلاق اصولی ہو ،نہ کہ جوابی۔ اعلیٰ اخلاقیات اس کا ایک عام اصول ہو، جس کو وہ ہرجگہ برتے، خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ، وہ جوڑنے والا ہو ،حتی کہ اس کے ساتھ بھی جو اس سے براسلوک کرے، اور وہ نظر انداز کرنے والا ہو حتی کہ اس سے بھی جو اس پر ظلم کرتا ہو۔

    حضرت حذیفہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    تم لوگ امتعہ نہ بنو کہ یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور لوگ براکریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے،بلکہ اپنے آپ کو اس کا خوگر بناؤ کہ لوگ اچھا سلوک کریں تب بھی تم اچھا سلوک کرو اور لوگ براسلوک کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو۔(مشکوٰة المصابیح)
    اور فرمایا جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو، جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو اور جو تمہارے ساتھ بُراسلوک کرے تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

    حضرت سعید ابن ہشام تابعی رحمة اللہ علیہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ”کان خلقہ القرآن“ یعنی آپ ﷺکا اخلاق تو قرآن تھا۔

    گویا قرآن کی صورت میں مطلوب زندگی کا نقشہ آپ ﷺنے جو دوسروں کے سامنے پیش کیا، خود آپ ﷺاسی نقش میں ڈھل گئے۔

    ایک بوڑھی عورت کا قصہ مشہور ہے وہ ہر روز آپ ﷺ پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی، ایک دن حضور ﷺ اس کے مکان کے پاس سے حسب معمول گزرے تو آپ ﷺ پر کسی نے کوڑا نہ پھینکاتو آپ ﷺنے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ فلاں مائی خیریت سے تو ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو بیمار ہے، آپ ﷺ یہ سنتے ہی صحابہ کو ساتھ لے کر اس بڑھیا کی تیمار داری کے لئے اس کے گھر چلے گئے، مائی نے دیکھا یہ وہی شخص ہے جس پر میں روزانہ کوڑا پھینکا کرتی تھی مگر وہ برا ماننے اور کچھ کہنے کے بجائے خاموشی اور شرافت سے برداشت کرکے چلاجاتا تھا اور آج وہی میری تیمارداری کے لئے آگیا ہے، یہ دیکھ کروہ بہت متأثر ہوئی اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ عام انسان نہیں، واقعی خدا کا پیغمبر ہے،اسے اپنی غلطی کااحساس ہوگیا،اس نے حضور ﷺ سے معافی مانگی اور آپﷺ پر ایمان لے آئی، گویا یہ آپ ﷺکے اخلاق کا اثر تھا، اسی طرح بے شمار واقعات ایسے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اخلاق انسان کی وہ صلاحیت ہے جس میں انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے اور اگر انسانیت میں سے اخلاق کی صفت نکال لی تو باقی صرف حیوانیت رہ جاتی ہے۔

    حضرت معاذ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کو جب رسول اللہ ﷺ نے یمن کا عامل بناکر بھیجا تو وصیت فرمائی کہ:
    لوگوں کے ساتھ آسانی کا برتاؤ کرنا اور سختی سے پیش نہ آنا اور ان کو خوشخبری سنانا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں متفق رہنا اور اختلاف نہ کرنا۔(بخاری)
    ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
    قیامت کے روز مجھے سب سے زیادہ محبوب اور مجھ سے سب سے زیادہ قریب تر وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے۔
    دین اسلام میں اخلاق کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ ﷺ دعا مانگتے تھے: "اے اللہ جس طرح تونے مجھے خوبصورت پیدا فرمایا ہے اسی طرح مجھے خوبصورت اخلاق بھی عطا فرما۔" آپ ﷺ نے اخلاق حسنہ کے لئے اتنی دعائیں اور اتنی تاکید اس لئے فرمائی ہے کہ انسان اخلاق ہی سے بنتا ہے اور عمدہ سیرت سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے اور انسان کی پہچان بھی اخلاق سے ہوتی ہے۔

    اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے پیارے نبی ا والے اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی جملہ تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

    ,


    جناب شیخ سعدی علیہ رحمۃ بتاتے ہیں کہ انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، اس کی پیچھے پیچھے اس کی بکری بھی بھاگتی آ رہی تھی تو شیخ سعدی نے کہا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے اس کی وجہ کیا یہ رسی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے۔

    اس پر اس جوان نے اس بکری کے پٹے کو کھول دیا تو بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی۔ وہ اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے آتی رہی کیونکہ بکری نے جوان کے ہاتھ سے سر سبز چارہ کھایا تھا، پھر جب وہ سیر اور کھیل کود سے واپس ہوا اور مجھے دیکھا تو بولا اے صاحب ، اس جانور کو یہ رسی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی ، بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔

    ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہذا اے نیک مرد!برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کر ، کیونکہ ایک کتا بھی جس نے تیری روٹی کھائی ہے وہ تجھ سے وفا داری کرتا ہے۔

    (شیخ سعدی شیرازی کی "بوستان" سے اقتباس)

    , ,


    (مسعود احمد برکاتی)

    کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟"

    لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟"

    شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔"

    مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟"

    "میں ہوں جنید بغدادی۔"

    "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"

    "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔"

    "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"

    "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"

    پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"

    یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔"

    یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔"

    "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"

    بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟"

    "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"

    بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"

    شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔"

    "تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟"

    "میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔

    بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"

    "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"

    شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔"

    "اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟"

    "جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔


    بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔"

    یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔"

    کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔"

    شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" (اللہ تمہارا بھلا کرے)

    پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔"

    پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"

    بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

    حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

    ,


    ایک دن میں نے کھیتوں کے کاٹھ کے پتلے سے کہا۔۔۔ تم اس کھیت میں کھڑے اکتا گئے ہو گے۔۔۔۔۔

    اس نے کہا۔۔۔۔ "جانوروں کو ڈرانے کی لذت اس قدر عمیق اور دیرپا ہے کہ میں اس سے کبھی نہیں اکتاتا۔۔۔۔" میں نے ایک منٹ سوچ کر کہا۔۔۔۔ "یہ سچ ہے کیونکہ میں نے بھی اس مسرت کا مزاچکھا ہے۔" 

    اس نے کہا۔۔۔۔ "ہاں وہی لوگ جن کے جسم میں گھاس پوس بھری ہو اس لذت سے آشنا ہو سکتے ہیں۔۔۔۔"

    یہ سن کر میں وہاں سے چل دیا لیکن مجھے یہ خبر نہیں کہ اس نے میری تعریف کی یا میرا مضحکہ اڑایا۔ 

    ایک برس گزر گیا اور اس مدت میں وہ کاٹھ کا پتلا ایک فلاسفر بن چکا تھا۔ اور جب میں دوبارہ اس کے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ اس کے سر پر دو کوؤں نے گھونسلا بنا رکھا ہے۔

    (حکایتِ خلیل جبران)

    ,



     اگر آپ قرآن کریم میں بیان کئے گئے تمام درختوں اور پودوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے لئے دبئی کا رخ کریں جہاں مقامی انتظامیہ ایک ایسا وسیع پارک تعمیر کر رہی ہے جس میں قرآن کریم ميں بیان کئے گئے 54 میں سے 51 درختوں اور پودوں کو لگایا جائے گا۔

    پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق دبئی کے پروجیکٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرجنرل محمد نور مشروم کا کہنا تھا کہ قرآن میں 54 درختوں اور پودوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں انار، زیتون، تربوز، کیلے، گندم ، پیاز ، املی، انگور، نیاز بو ،کددو اور دیگر شامل ہیں، 158 ایکٹر وسیع رقبے پر مشتمل پارک میں اب تک 31 درختوں اور پودوں کو لگایا جا چکا ہے جب کہ بقیہ 20 کو تیسرے مرحلے ميں لگایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن پاک میں بیان کئے گئے 3 پودے اس وقت دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ۔

    محمد نور مشروم نے کہا کہ پارک میں ایک ایئرکنڈیشنڈ سرنگ بھی تعمیر کی جا رہی ہے جس میں قرآن پاک کے کرشمے اور دیگر بیان کئے گئے واقعات سے متعلق بھی آگاہی دی جائے گی جب کہ پارک کے درمیان میں ایک جیل بھی بنائی جا رہی ہے۔


Top