آمدورفت

محفوظات

Budaya

Wisata

Linear

Budaya

Daya

Kuliner

Liner

تبصرے

kota

Free hosting
    • Latest Stories

      What is new?

    • Comments

      What They says?

فرض شناسی

ایک بڑھیا بے چاری بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی ٹرین کے ڈبے میں سوار ہوگئی۔ چھوٹی سے گٹھڑی اس کے ساتھ تھی۔ اسے لے کے بمشکل وہ ایک طرف کو تھوڑی سے جگہ بناکر بیٹھ گئی۔ یہ دو آدمیوں کا چھوٹا سا فرسٹ کلاس کا ڈبہ تھا لیکن اسکے اندر بیس آدمی ٹھسے ہوئے تھے، کوئی کھڑا تھا کوئی بیٹھا تھا، جو جگہ لوگوں سے بچ گئی تھی اس میں سامان رکھا ہوا تھا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی کسی سے پوچھ نہ سکتا تھا کہ بھیاتم کس درجہ کے مسافر ہو؟ یہ فرسٹ کلاس کا ڈبہ ہے اور پہلے سے دو آدمیوں کے لئے ریزرو ہے۔ 


یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک تقسیم ہوا تھا۔ پاکستان وجود میں آیا ہی تھا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر۔ اس لئے یہی مسلمانوں کا وطن تھا۔ ہندوستان سے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جان بچا کر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ رہے تھے۔ 

پاکستان، جو اُن کی تمناؤں کا ثمر نورس تھا۔
پاکستان، جس کے لئے انھوں نے تن من دھن کی قربانی دی تھی۔ 
پاکستان، جسے اسلام کی نشاۃِثانیہ کا گہوارہ بننا تھا۔ پاکستان ان کے لئے سب کچھ تھا۔ دین بھی دنیا بھی۔ اس کا چپہ چپہ ان کے لئے مقدس تھا۔ اس گلِ تازہ کی خاطر انہوں نے خیابان و گلزار سب کچھ چھوڑ دئے تھے۔ ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ ان کا کیا ہوگا۔ انھیں تو بس یہی ایک خوشی تھی کہ دو صدیاں گذرنے کے بعد وہ دن آئے تھے کہ ارضِ ہمالہ کے ایک گوشے میں لا الہٰ کا پرچم لہرارہا تھا۔ وہ پرچم جو مسلمانوں کی عزت و وقار کا مظہر تھا۔ 

یہ بے چاری بڑھیا بھی اپنا سب کچھ لٹا کر نہ جانے کِس طرح بچتی بچاتی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا کہ یہ تمیز کر سکتی کہ وہ کس درجہ میں آکر بیٹھ گئی ہے۔ اُسے تو بس ایک بات معلوم تھی کہ یہ ہمارا ملک ہے، یہ ہماری گاڑی ہے۔ جو دوسرے مُسافر تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔ ہر ایک کا چہرہ غم و اَلم کی تصویر تھا۔ کیا کیا کچھ کھویا تھا، کہ اس ملک کو پالیں یہ کون کہتا؟ کیسے کہتا؟ کِس سے کہتا؟ مسلسل صدمات برداشت کرتے کرتے دِلوں میں ناسُور پڑگئے تھے اور زبانیں گُنگ ہو گئی تھی۔ 

گاڑی کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ٹکٹ چیکر ڈبے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاپی تھی، مشتاق احمد صاحب اپنی آپ بیتی کاروانِ حیات میں لکھتے ہیں کہ ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر معاً مجھے خیال آیا کہ مدتوں میں ریلوے کا افسر رہا ہوں۔ دیکھوں یہ چیکر کیا کرتا ہے۔ 

چیکر نے بڑھیا کو دیکھا تو اس سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ وہ اللہ کی بندی کسی قابل ہوتی تو کچھ کہتی۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ پڑے اس کے پاس ٹکٹ نہ تھا۔ کسی درجہ کا بھی ٹکٹ نہ تھا۔ ملک کے حالات، بڑھیا کی کیفیت، غم و اندوہ کی فضا ایسی تھی کہ عام معمولات کی پابندی بہت مشکل تھی۔ مشتاق صاحب لکھتے ہیں۔ میں نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ چیکر نے اپنی نوٹ بک نکالی اور بلا ٹکٹ سفر پر بڑھیا کا چالان کردیا۔ اس نے رسید کاٹ دی تو بڑھیا بے اختیار اُس سے بولی "بیٹا! میرے پاس کچھ نہیں تو یہ رسید نہ کاٹ"۔

جواب ملا،اماں! اگر ہم بلا ٹکٹ سفر کریں تو ہمارے نئے ملک کا کام کیسے چلے گا؟ تمہارا چالان ہوگا، پیسے داخل ہوں گے۔ تم بہت دکھیاری ہو، تمہاے لئے میرا دل بھی دکھی ہے۔ یہ جرمانہ تم نہیں دو گی میں اپنی طرف سے دیدونگا۔

احساسِ فرض، ملک کی محبت اور بے سہاروں کی خدمت کا یہ ایسا انمول واقعہ تھا کہ سب مسافروں کے دلوں پر نقش ہو گیا۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ فرض شناس اور ملک دوست ٹکٹ چیکر کون تھا؟ لیکن دل بے اختیار کہتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی تھا۔

شاہ بلیغ الدین کی کتاب "روشنی" سے اقتباس۔ 

About Unknown

Adds a short author bio after every single post on your blog. Also, It's mainly a matter of keeping lists of possible information, and then figuring out what is relevant to a particular editor's needs.

1 تبصرے:


Top