آمدورفت

محفوظات

Budaya

Wisata

Linear

Budaya

Daya

Kuliner

Liner

تبصرے

kota

Free hosting
    • Latest Stories

      What is new?

    • Comments

      What They says?

بادشاہی مسجد، لاہور


ہندوستان کے چھٹے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی سرپرستی میں ان کے سوتیلے بھائی، مضفرحسین( جو فدائی خان کوکا کے نام سے مشہور ہوئے) نے یہ عظیم الشان مسجد بنوائی۔  مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مذہبی بادشاہ تھے۔ اس کی تعمیر ی کام کا آغاز1671ء میں شروع ہوا اور مسجد 1673ء میں مکمل ہوئی۔یہ مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ مسجد کا طرز ِ تعمیردلی کی جامع مسجد سے کافی ملتا جلتا ہے جسے اورنگزیب کے والد شاہجاں نے تعمیر کروایا تھا۔ بادشاہی مسجد ، فیصل مسجداسلام آباد کے بعد پاکستان کی دوسری اور جنوبی ایشیاء کی پانچویں بڑی مسجد ہے جس میں بیک وقت 60 ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کو تین سو تیرہ (313) سال تک دنیا کی سب سی بڑی مسجدہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ اس کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 54 میٹر ہے۔ میناروں کی اونچائی تاج محل کے میناروں سے بھی زیادہ ہے۔

بادشاہی مسجد کی ایک نایاب تصویر
 1799ء میں رنجیت سنگھ کی زیر قیادت سکھ افواج نے لاہور پر قبضہ کیا تو انہوں نے اس تاریخی مسجد کو شدید نقصان پہنچایا۔ مسجد کا صحن سکھ سپاہیوں کے اصطبل اور اس کے صحن کے گرد بنے ہوئے حجرے سپاہیوں کی قیام گاہ اور اسلحہ خانے کے طور پر استعمال ہونے لگے اور مسجد اور شاہی قلعے کے درمیان واقع حضوری باغ رنجیت سنگھ کے دربار کے طور پر سجنے لگا۔ صرف یہیں پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ رنجیت سنگھ کے بعد سکھوں میں پڑنے والی پھوٹ اور خانہ جنگی میں مسجد کے مینار تک گولہ باری کے لیے استعمال ہوئے، جس سے قلعے اور مسجد کو سخت نقصان پہنچا۔


جب انگریزوں نے سکھوں سے پنجاب حاصل کیا تو امید تھی کہ مسجد کی حالت کچھ بہتر ہوگی لیکن انہوں نے مسجد کو بد سے بدترین حالت تک پہنچا دیا۔ انگریزوں نے نہ صرف یہ کہ قلعے کا بحیثیت چھاؤنی استعمال جاری رکھا بلکہ بادشاہی مسجد کے صحن کے گرد واقعے تمام حجرے اور مینار کے بالائی حصے ڈھا دیے تاکہ مسجد کا دوبارہ کسی عسکری مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے اور اسے اصطبل اور اسلحہ خانے کی حیثیت سے استعمال کیا۔ اس فعل پر مسلمانوں میں پائے جانے والے جذبات کے باعث بالآخر انگریزوں نے طویل عرصے کے بعد اسے مسلمانوں کے حوالے کیا، لیکن اس کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھانا نہ مسلمانوں کے بس کی بات تھی اور نہ انگریز سرکار کو اس سے کچھ دلچسپی تھی۔ کچھ نیم دلانہ کوششیں ضرور ہوئیں لیکن اتنی بڑی مسجد کو اپنے عظیم نقصان کے بعد پرانی شان و شوکت کے ساتھ بحال کرنا ایک بہت بڑے منصوبے کا متقاضی تھا۔


قیام پاکستان کے بعد 1960ء میں حکومت پاکستان نے اس تاریخی مسجد کی اصل شکل میں بحالی کے لیے ایک منصوبے کا آغاز کیا اور بالآخر لاکھوں روپے کی لاگت سے مسجد کو اس کی اصلی شکل میں بحال کردیا گیا۔ میناروں کے بالائی حصے اور صحن کے گرد تمام حجرے اپنی اصلی شکل و صورت میں تعمیر کیے گئے۔ آج مسجد ہر سال لاکھوں سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے اور لاہور میں سب سے زيادہ دیکھے جانے والے مقامات میں شامل ہے۔



About Unknown

Adds a short author bio after every single post on your blog. Also, It's mainly a matter of keeping lists of possible information, and then figuring out what is relevant to a particular editor's needs.

کوئی تبصرے نہیں:

Leave a Reply


Top